عورت ہونا بھی کیسا دلچسپ ہے تجربہ
عورت ہونا بھی کیسا دلچسپ ہے تجربہ
وہ ذہنی اور جذباتی انتشار سے گزر رہی ہوتی ہے مگر اسے اپنے فرائض اُسی پرانی خوبی سے نبھانے ہوتے ہیں۔
وہ اٹکتی سانس ، تنگ ہوتے قلب اور مرجھائے ہوئے اعصاب کے ساتھ وقت پر آٹا گوندھتی ہے ، گول اور خستہ روٹی بناتی ہے ، صحن کو اسی خوبصورتی سے چمکاتی ہے ، برتنوں کو دھو کرپھر سے رزق کے لائق بناتی ہے ۔
گہرے حلقوں کو کوئی نوٹس نہیں کرتا ۔۔۔ مگر میز پر گرد بڑھ جائے تو تم نکمی اور سست ہورہی ہو کہنے میں کسی کو جھجک نہیں ہوتی ۔
اس کے ہاتھ سے بنے ناشتے کی خوشبو سے سارا محلہ مہکتا ہے ، اس کے جل چکے خواب اب بو پیدا کررہے ہیں کس کی سونگھنے کی حِس اتنی تیز ہوا کرتی ہے؟
وہ کپڑے دھو کر بہت سلیقے اور بڑے طریقے سے تار پر پھیلاتی ہے اور ایک کپڑا وہیں پرات میں رہ جائے تو ' تم کہاں کھو گئی ہو ؟ ' سنتی تو ہے مگر اس کی کتابوں کی الماری کئی دنوں سے بے ترتیبی کا غم اٹھا رہی ہے کون دیکھتا ہے
زندگی ۔۔۔ اس کی رینج سے بہت باہر ہوئی چلی جارہی ہے۔ زندوں میں کون جان سکتا ہے یہ
وہ کوئی شرٹ استری کرنا بھول گئی تو کون پوچھتا ہے کیا تم تھک رہی ہو آج کل ؟ کچھ ہے جو ہم مل بیٹھ کر سلجھا سکیں
کونوں میں رونے کے بعد اس کے آنسو فرش پر نقش بھی نہیں چھوڑتے کہ کوئی پوچھے ' آج کوئی اتنا کیوں رویا ہے ؟ کوئی اتنا کیسے روتا ہے
کیا رب سے یہ فرمائش کرنا بہت اضافی ہے کہ غم کے دنوں میں ، تھکن کی رُت میں ۔
گھر ، روٹین ، کپڑے اور کھانے کی ڈیوٹی سے کوسوں دور تتلی کے رنگ کے ایک پیڑ تلے اسے بیٹھنے دیا جائے
کم سے کم تین گھنٹے۔
جہاں وہ آنکھیں موند کر اس پیڑ سے ٹیک لگائے
رونا چاہے تو رو لے
ہنسنا چاہے تو بہت ہنسے اور یقیں نامی چرواہا اس کے سامنے بیٹھ کر
امید پھونک کر بانسری بجائےاور ہر دُھن اس سے کہتی ہو
اے رنجیدہ روح سکون کرو۔بریک لو ! تندرست ہونے کی دعا کرو
خود کو واپس جوڑنے کی جسارت کرو۔۔
دل نہ چاہے توکچھ نہ کرو ۔
بس کچھ دیر یونہی رہوپیڑ سے ٹیک لگائے نکھیں موندے۔
دونوں شانے ہلکے کردوسانس لو اوربس آرام کرو۔۔ کچھ نہ کرو